Sunday, January 27, 2013

جب منکر کا ارتکاب حکومت کر رہی ہو

جب منکر کا ارتکاب حکومت کر رہی ہو:
 
'برائی کو طاقت سے روکنا: علامہ یوسف القرضاوی
 
 منکر کو روکنے کے مسئلے میں ایک مشکل یہ بھی کھڑی ہو جاتی ہے کہ جب صاحبِ قوت اور صاحبِ اختیار، یعنی حکومت ہی برائی کی مرتکب ہو تو پھر افراد اور جماعتیں اُس منکر کو کیسے روکیں جس میں حکومت ملوث ہو یا حکومت اس کی پشت پناہی کر رہی ہو؟

 اس سوال کا جواب یہ ہے کہ افراد اور جماعتیں پہلے اتنی قوت کی مالک بنیں جو برائی کو روک سکے۔ عہد حاضر میں تین طاقتوں میں سے ایک کے ذریعے ہی یہ ممکن ہے۔ وہ حسب ذیل ہیں:
 
۱۔ مسلح افواج: یہ وہ طاقت ہے جس کا سہارا عہد حاضر کے بہت سے ملک لیتے ہیں۔ خصوصاً تیسری دنیا میں اپنے حکم نافذ کرنے، سیاست کا سکہ بٹھانے اور اپنے مخالفین کو آتش و آہن کے ذریعے خاموش کرنے کے لیے اسی قوت سے کام لیتے ہیں۔ ان حکومتوں کے نزدیک مناسب، محفوظ اور معقول راستہ دلیل و منطق اور بات چیت کا نہیں بلکہ قوت کا ہے۔ یہ قوتیں جس کے ساتھ ہوں گی اس کے لیے قومی دھارے کے رخ کو بدلنا یا روک دینا ممکن ہو گا۔ اس کا مظاہرہ ماضی قریب میں بہت سے ممالک میں کیا گیا اور آئے روز کہیں نہ کہیں ہوتا رہتا ہے۔
 
 ۲۔ پارلیمنٹ: مروّجہ جمہوری نظام حکومت میں غالب اکثریت رکھنے والی پارلیمنٹ کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ قانون بنا بھی سکتی ہے اور تبدیل بھی کر سکتی ہے۔ خالص حقیقی جمہوری نظام کے تحت یہ اکثریت جس کو بھی حاصل ہو جائے اس کے لیے ممکن ہے کہ وہ قانون سازی کے بعد اس کو نافذ کر کے اُن تمام منکرات کو روک سکتی ہے جو اُسے نظر آئیں۔ پھر کسی وزیر، سربراہِ حکومت، یا سربراہِ ریاست کے بس میں نہیں ہوتا کہ وہ پارلیمنٹ کے سامنے ’نہ‘ کہے۔
 
 ۳۔ قومی سطح کی فیصلہ کن عوامی قوت: یہ عوام کی ملکی سطح کی ایسی فیصلہ کن قوت ہوتی ہے جسے اجتماع سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ جب یہ قوت حرکت میں آ جائے تو کسی میں ہمت نہیں ہوتی کہ اس کا سامنا کرے یا اس کا راستہ روکے۔ یہ قوت اپنی تندی اور تیزی میں ٹھاٹھیں مارتے سمندر یا سب کچھ بہالے جانے والے سیلاب کی مانند ہوتی ہے کہ کوئی شے، حتیٰ کہ مسلح قوتیں بھی اس کے سامنے ٹھیر نہیں سکتیں۔ یہ مسلح قوتیں بھی تو اسی کا حصہ ہوتی ہیں اور یہ عوام ان قوتوں کے افرادِ خاندان، باپ، بیٹے اور بھائی ہی تو ہوتے ہیں۔
..........

میں یہاں اس بات سے آگاہ کرناضروری سمجھتا ہوں جو مسلمانوں کی اصلاح کے عمل میں مصروف لوگوں کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے پسماندگی، مغربی استعمار، آمروں اور سیکولر حکومتوں کے ادوار میں جس ٹوٹ پھوٹ سے دوچار ہوئے ہیں، اس تخریب کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ ان اثرات کو ختم کرنے کے لیے جزوی برائیوں کا ازالہ کافی نہیں ہے۔ مثلاً رقص و سرود کی محفلیں، عورتوں کا راستوں میں اظہار زینت کے ساتھ آنا جانا، آڈیو ویڈیو کیسٹوں کی فروخت وغیرہ اگرچہ نامناسب ہیں، جائز نہیں ہیں، مگر صرف انھی برائیوں کے خاتمے سے معاشرے کی اصلاح ناممکن ہے۔ معاملہ ان سے بھی بڑا اور عظیم ہے جو کامل، وسیع تر اور گہری بنیادوں پر تبدیلی کا تقاضا کرتا ہے___ ایسی تبدیلی جو افکار و تصورات، اقدار و معیارات، اخلاق و اعمال، آداب و روایات اور قوانین و ادارہ جات سب کا احاطہ کرتی ہو۔
 

No comments:

Post a Comment