تاریخ کا سبق یہ بھی ہے کہ معلوم انسانی تاریخ میں جب کبھی حزب اللہ وجود میں آئی وہ کبھی بھی ناخالص اور کچے لوگوں سے بالکل پاک اور خالص نہ رہی۔ حضرت موسیٰٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کی اکثریت بچ بچا کر چلنے والوں پر مشتمل تھی، چنانچہ حضرت موسٰی علیہ السلام کی جدوجہد کے اہم اور نازک ترین مرحلے پر انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو صاف جواب دے دیاکہ:فاذھب انت وربّک فقاتلا انا ھٰھنا قٰعدون (المائدہ-24) "پس تم جاوء اور تمھارا رب اور تم دونوں لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں"۔
اس طرح قتال سے منہ موڑ کر انہوں نے اپنی اس بیماری کا ثبوت فراہم کیاتو اللہ تعالٰی نے بھی انکے دلوں پر مہر کر دی۔
فلّما زاغُوآازاغ اللہ قُلُوبھم ط واللہ لا یھدی القوم الفٰسقین (سورہ الصف-5) "پھر جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو کج کردئیے اللہ نے انکے دل، اور اللہ تعالی فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔"
حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارہ ساتھیوں میں سے ایک نے انعام کی لالچ میں دھوکہ کرنے کی کوشش کی۔ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پکارپر لبّیک کہنے والوں میں ایسے ہی مریض لوگوں کی موجودگی پر قرآن کی آیات گواہ ہیں۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنےوالے کوفی تھےجو "لایُوفی" ثابت ہوئے۔ تحریک شہیدین کو بھی سب سے زیادہ نقصان اُن بیعت کرنےوالوں نے ہی پہنچایاجو اپنے مفادات اور خواہشات کی قربانی دینے کے لئے ذہنا” تیار نہ ہوئے تھے۔
عصر حاضر میں بھی دینی و مذہبی جماعتیں ایسے ہی لوگوں کے قبضے میں آکر منزل کھوٹی کرچکی ہیں۔ غرض کوئی جماعت یا تحریک نہ توایسے روگیوں سے مبرّا قرار دی جاسکتی ہےاورنہ ہی انکے مستقل حزب اللہ میں رہنے کی ضمانت فراہم کی جاسکتی ہے۔
چنانچہ آج اگر رفقاء تنظیم اسلامی حزب اللہ کے مقام کے لئے کوشاں ہیں تو انکویہ شعور بھی حاصل ہونا چایئےکہ ابھی امتحان ختم نہیں ہوا۔ حق کو قبول کرلینا کفایت نہیں کرتا۔ اس کے تقاضے نبھاتے چلے جانااور ہر آزمائش پر پورا اترناضروری اور اہم ہوتا ہےاور آخری وقت تک اس روش پر قائم رہنااور "ثمّ استقامو"پر عمل کرنااصل آزمائش ہے۔جب تک اس دارلامتحان میں ہیں تب تک یہ بات کہ ع"ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں"مستحضر رہنی چاہئے۔ یہی وہ احساس ہے جو رفقاء تنظیم اسلامی کو چوکنا رکھ سکتا ہےکہ انہیں اب بھی حزب الشیطان میں شمار ہونے کا خطرہ درپیش ہے۔بلکہ اسکی ہلاکت خیزی اور تباہکاری پہلے سے بڑھ چکی ہے۔حق کو قبول کرکے پسپائی اور باطنی ارتداداختیار کرنے کی سزازیادہ کڑی اور سخت ہے۔یہ تو بدبختی اور بدنصیبی کی وہ انتہا ہےجہاں پہنچ کر نہ صرف نبیء رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور استغفارسے محرومی کا منہ دیکھنا پڑسکتا ہےبلکہ جہنم کے سب سے نچلے گڑھے کی سزا بھی مقدر ہوسکتی ہے۔
کتاب:
غلبہء دین کی جدوجہد کرنیوالوں کے لئےبعض داخلی خطرات
تحریر:خالد محمود عباسی
|
Wednesday, January 23, 2013
غلبہء دین کی جدوجہد کرنیوالوں کے لئےبعض داخلی خطرات
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment