مکہ کے قریش کے بارے میں یہ سمجھنا کہ وہ عرب کے دیگربدوقبائل کی طرح ایک قبیلہ تھا، صحیح نہیں، صحرائی و بدوی زندگی اور اس کے لوازمات و خصائص جو دوسرے بدوی قبائل میں موجودتھے، قریش ان سے بہرہ ورتو ضرورتھے لیکن عرب کی بدوی ذہنیت کا نمونہ نہ تھے۔ ۔۔۔۔۔ اس عہد کے ایک محقق کے الفاظ میں ’’متعدد کاروانی راستوں کا اہم جنکشن ہونے کی وجہ سے یہاں کی آبادی میں یک نسلی نہ رہی تھی۔ اسماعیلی خاندان عراق یا فلسطین سے آئے تھے۔ خزاعہ یمن کے تھے۔ مکہ والوں کی رشتہ داری اورکاروباری تعلقات شہرمدینہ اورطائف سے بھی کافی تھے۔ قصی کا تعلق شمالی عرب کے قبیلہ قضاعہ سے تھا۔ قصی کی کوشش اورقابلیت سے قریشی قبائل نے شہرمکہ میں سربرآوردہ حیثیت حاصل کی اورقصی ہی کی سرداری میں ایک زیادہ منضبط شہری مملکت قائم ہوئی جس میں سماجی اور انتظامی عہدے موروثی طور پر مختلف خاندانوں میں پائے جاتے تھے‘‘
اقتباس: شعوروآگہی، افاداتِ امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ، ص ۹۴
اقتباس: شعوروآگہی، افاداتِ امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ، ص ۹۴